اک بستی ہے کہ جہاں ہنوز آتش و آہن کی بارش جاری ہے، جہاں معصوم نونہال اپنی مادرانِ ملت کی آغوش میں، خوں میں نہائے، ابدی نیند سو رہے ہیں۔
نہ کوئی مرہم ہے، نہ جائے اماں، نہ ضیائے اُمید باقی، نہ ہی حیات کی کوئی رمق۔
مگر افسوس! کچھ دیدہ ور ایسے بھی ہیں، جن کے دل ان آہوں، سسکیوں اور فغاں کی بازگشت سے بھی بے بہرہ و بے حس ہیں۔
یہ فقط خاک کا ایک قطعہ نہیں، بلکہ مظلومیت کا وہ آئینہ ہے، جس میں ہر دِل شکستہ ماں کی چیخ، یومِ محشر کی جھلک لیے ہوئے ہے۔
ویران منازل، جلے ہوئے اوراق، خاکستر کھلونے، یہ سب گواہی دیتے ہیں کہ وہاں فقط اجسام ہی نہیں، امتِ مسلمہ کی حمیت و غیرت بھی سپردِ خاک ہو چکی۔
وہی اُمت، جسے دُکھِ دردیوں کے زخم پر تڑپنا سکھایا گیا تھا، آج اپنے ضمیر کی قبریں خود کھود چکی، اور عبرت کا تماشہ بن کر خاموشی کی چادر اوڑھے ہوئے ہے۔
وہ بستی، اشک بار نگاہوں سے آج بھی تمہیں پکار رہی ہے۔
اگر اب بھی غفلت کی نیند سے نہ جاگے، تو کل ربِ جلیل کی بارگاہ میں اس سنگدلی، اس بے حسی کا سخت محاسبہ تمہاری منتظر ہوگا۔