حضراتِ گرامی، سامعینِ ذی وقار، اور صاحبانِ فہم و فراست!
پیشِ خدمت ہے ایک ایسا واقعہ جو ابھی چند روز قبل پیش آیا، مگر اس کی دہشت و وحشت اب تک میرے دل و دماغ پر نقش ہے! سننے والے یقینا مسکراہٹ کو ضبط کرنے کی کوشش کریں گے، مگر گزارش ہے کہ اگر کہیں ہنسی قابو سے باہر ہو جائے تو بندۂ عاجز کو موردِ الزام نہ ٹھہرایا جائے!
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک صبح صادق، جب پرندے چہچہا رہے تھے، ہوا میں تازگی کی لہریں موجزن تھیں، اور سورج صاحب ابھی انگڑائیاں لے رہے تھے، عین اُسی وقت صوفی بھائی، یعنی یہ خاکسار، اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا۔ نہا دھو کر، عطر لگا کر، کپڑے استری کر کے یوں نکلے تھے کہ جیسے کسی بین الاقوامی کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہو!
ابھی چند ہی قدم چلے تھے کہ اچانک میری آنکھوں نے ایسا منظر دیکھا کہ دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو گئی، سانسیں بے قابو ہونے لگیں، اور پیشانی پر وہ پسینہ آ گیا جو عام طور پر امتحان میں نقل کرتے ہوئے استاد کو دیکھ کر آتا ہے!
سامنے پولیس کھڑی تھی!
ارے بھائی! صوفی بھائی تو لمحے بھر میں کائنات کی ساری مشکلات بھول گئے، دل نے کہا، "بس بیٹا! آج تو گئے کام سے!" کیونکہ یہ خاکسار پردیسی ہے، اور یہاں نہ تو میرے پاس کوئی شناختی کاغذات تھے، نہ کوئی سفری دستاویزات، اور نہ ہی کوئی ایسا پرچی نما ثبوت جو مجھے قانونی طور پر پاک دامن ثابت کر سکے!
اب معاملہ نہایت نازک تھا!
1. بھاگنا؟ ارے توبہ! یہ تو صاف خطرہ مول لینا ہوتا، کیونکہ پولیس کے سامنے بھاگنے والے کی حیثیت فوراً چوروں اور ڈاکوؤں کی فہرست میں شامل ہو جاتی ہے!
2. چھپنا؟ لیکن مجال ہے کہ کوئی گلی، نکڑ، یا درخت ایسا نظر آتا جہاں بندہ چہرہ چھپا لیتا!
3. آنکھیں چار کرنا؟ استغفراللہ! یہ تو کسی جلاد کو خود سے کہنے والی بات ہوتی کہ "چل بھائی! جلدی گردن اتار!"
ایسے میں اچانک میرے ذہنِ رسا میں ایک لاجواب ترکیب وارد ہوئی! میں نے جھٹ موبائل نکالا، کان سے لگایا، اور انتہائی مصروفیت کا مظاہرہ کرنے لگا، جیسے اقوامِ متحدہ کے معاملات میں دخل دے رہا ہوں!
ادھر پولیس والوں نے ایک نظر مجھ پر ڈالی، اور شاید مجھے کوئی نہایت ہی معزز اور شریف انسان سمجھ کر آگے بڑھ گئے، اور اِدھر صوفی بھائی نے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ آج کی مصیبت ٹل گئی!
لیکن صاحبو! یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی!
اگلے دن جب دوبارہ اُسی راستے پر جانے کی نوبت آئی، تو صوفی بھائی نے وہ تمام حفاظتی اقدامات اختیار کیے، جو کسی میدانِ جنگ میں جانے والا سپاہی کرتا ہے!
پہلے ایک کنارے کھڑے ہو کر اردگرد کا ماحول دیکھا، آنکھیں تیز کر کے جستجو کی کہ کہیں وردی پوش حضرات گھات میں تو نہیں بیٹھے؟ دائیں دیکھا، بائیں دیکھا، آسمان کی طرف بھی نظر دوڑائی کہ کہیں کوئی ڈرون کیمرہ ہی میری تاک میں نہ ہو! اور جب پوری تسلی ہو گئی کہ فضا مکمل طور پر محفوظ ہے، تب جا کر لرزتے ہوئے قدم آگے بڑھائے!
اب صوفی بھائی کا اصول یہ ہے کہ جہاں بھی نکلنا ہو، پہلے پورا جغرافیائی تجزیہ کیا جاتا ہے، موسمی حالات کو مدنظر رکھا جاتا ہے، اور جب تک مکمل تسلی نہ ہو جائے، تب تک قدم نہیں بڑھایا جاتا!
سو، صاحبو! یہ تھی صوفی بھائی کی سنسنی خیز داستان، جو اگرچہ پڑھنے میں مزاحیہ معلوم ہوتی ہے یا بیکار، مگر اُس وقت، واللہ! یہ کسی قیامت سے کم نہ تھی!
فقط والسلام، مع الاحترام
بندۂ عاجز، مسافرِ زمانہ،
صوفی بھائی!